یاس یگانہ چنگیزی Ú©Ùˆ غالب Ø´Ú©Ù†ÛŒ پر بہت شہرت ملی Û”Û”Û” عبدالØ+فیظ ظفر

yas changezi.jpg
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یاس یگانہ چنگیزی Ú©Ùˆ مرزا اسداللہ غالب پر Ú©Ú‘ÛŒ تنقید کرنے Ú©ÛŒ وجہ سے خاصی شہرت ملی لیکن وہ شاعر بھی بہت عمدہ تھے۔ ان Ú©ÛŒ غزلوں میں جو سادگی‘ سلاست اور مضمون آفرینی ہے وہ بہت Ú©Ù… شعرا Ø¡ Ú©Û’ ہاں ملتی ہے۔ بعض نقادوں Ú©ÛŒ رائے میں جدید شاعری Ú©Û’ آغاز سے پہلے جس شاعر Ù†Û’ سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یگانہ چنگیزی تھے۔ جدید اردو شاعری Ú©ÛŒ بنیاد بھی ایک طرØ+ سے انہوں Ù†Û’ رکھی جب انہوں Ù†Û’ غزل Ú©Û’ موضوعات تبدیل کیے۔ کنہیا لال کپور بھی غالب Ø´Ú©Ù† تھے لیکن انہوںنے نثر Ú©Û’ ذریعے اپنی بھراس نکالی۔ انہوں Ù†Û’ غالب Ú©Û’ ان اشعار Ú©Ùˆ بھی نہیں بخشا جہاں غالب Ù†Û’ نکتہ آفرینی اور فلسفے سے کام لیا۔ بہرØ+ال یہ ان Ú©ÛŒ رائے ہے اور اس سے اختلاف کرنے کا Ø+Ù‚ بھی سب Ú©Ùˆ ہے۔
Û”45 شعری مجموعوں Ú©Û’ خالق یاس یگانہ چنگیزی 1884Ø¡ Ú©Ùˆ عظیم آباد( پٹنہ) بھارت میں پیدا ہوئے اصل نام مرزا واجد Ø+سین تھا۔ بعد میں وہ لکھنو میں آباد ہو گئے اور یگانہ لکھنوی Ú©Û’ نام سے Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’Û” دراصل یاس یگانہ چنگیزی Ú©Û’ آبائو اجداد ایران سے ہندوستان آئے تھے اورمغل فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ انہوں Ù†Û’ پہلے یاس تخلص رکھا اور پھر یگانہ۔ یگانہ کا مطلب ہے جسکا کوئی مقابلہ نہیں یعنی (Matchless) شروع سے ہی وہ باغیانہ روش رکھتے تھے اور اختراع پسند (Innovator) بھی تھے۔ ان Ú©Û’ ہم عصر شاد عظیم آبادی Ù†Û’ ان Ú©Û’ مزاج Ú©Ùˆ سمجھا اور ان Ú©ÛŒ صلاØ+یتوںکو نکھارا۔ یگانہ کلکتہ Ú†Ù„Û’ گئے اور وہیں شادی Ú©ÛŒ لیکن پھر انہوںنے لکھنو میں ہی نیا گھر ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کلکتہ میں وہ غیر مطمئن تھے یہاں انہیں مناسب ماØ+ول نہ ملا۔ وہ اناپرست تھے اور اصولوں پر سمجھوتہ بھی نہیں کرتے تھے اس لئے وہاںکے شعرا Ø¡ سے ذہنی مطابقت پیدا نہ کر سکے۔ اپنی شخصیت اور مزاج Ú©Û’ عین مطابق یاس یگانہ چنگیزی کا شعری لہجہ بھی براہ راست ہوتا تھا۔بڑے بے باک تھے اور کئی معاملات Ú©Û’ Ø+والے سے جارØ+انہ رویہ رکھتے تھے۔ ان Ú©Û’ مشہور شعری مجموعوں میں ''نشتر یاس‘ ترانہ‘ آیات وجدانی اور گنجینہ‘‘ شامل ہیں۔ انہوں Ù†Û’ بہت زیادہ لکھا آخر 45 شعری مجموعے ایسے ہی وجود میں نہیں آگئے۔
یاس یگانہ اپنے نام Ú©Û’ ساتھ چنگیزی اس لئے لگاتے تھے کیونکہ وہ اپنے آپ Ú©Ùˆ مغل سمجھتے تھے۔ بہرØ+ال یہ ان کا دعویٰ تھا۔ بعض نقاد از راہ مذاق کہتے تھے کہ یاس یگانہ Ú©Û’ شعری لہجوں میں بعض اوقات بڑی ''جارØ+یت‘‘ ملتی ہے۔ شاید اس Ú©ÛŒ وجہ یہ تھی کہ ان Ú©ÛŒ رگوں میں چنگیزی خون دوڑ رہا تھا۔
یاس یگانہ چنگیزی Ú©Û’ بہت سے اشعار متاثر Ú©Ù† ہیں لیکن کئی اشعار ایسے بھی ہیں جو تاثریت سے خالی ہیں لیکن چونکہ انہوں Ù†Û’ لکھا بہت ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سارا کام تو اعلیٰ درجے کا نہیں تھا۔ سادگی اور سلاست ان Ú©ÛŒ شاعری Ú©Û’ بنیادی اوصاف ہیں اور پھر اس کیساتھ ساتھ انہوں Ù†Û’ اردو غزل میں موضوعات Ú©Û’ نئے امکانات تلاش کیے۔ اس Ù„Ø+اظ سے دیکھا جائے تو ان Ú©ÛŒ شاعری کا کینوس خاصا وسیع ہے۔ ان Ú©Û’ ان گنت شعر فکری توانائی سے معمور ہیں۔ ذرا یہ شعر ملاØ+ظہ کریں۔
انقلاب دہر نے آنکھوں کو اندھاکر دیا
آخر اب نظارہ فصل خزاں کیوں کر کریں
کبھی یوں Ù…Ø+سوس ہوتا ہے کہ یگانہ صاØ+ب آتش زیرپا ہیں۔ ایک الائو ہے جو ان Ú©Û’ سینے میں جل رہا ہے اور وہ اپنے فکر Ú©ÛŒ آتش میں سارے جہاںکو جلانے Ú©Û’ آرزومند ہیں۔ وہ خودکہتے ہیں۔
کلام یاس سے دنیا کو ایک آگ لگی
یہ کون Ø+ضرت آتش کا ہم زباں نکلا
غالب کا شعر ہے
واعظ نہ خود پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
یاس یگانہ چنگیزی Ú©ÛŒ اس Ø+والے سے مضمون آفرینی ملاØ+ظہ کیجئے۔
واعظ کی آنکھیں کھل گئیںپیتے ہی ساقیا
یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
دیکھا جائے تو اس شعر میں بھی بغاوت Ú©ÛŒ بو آتی ہے لیکن ایسے خیالات Ùˆ اØ+ساسات تو ان Ú©ÛŒ فطرت کا Ø+صہ تھے ان Ú©Û’ ایک شعر پر تو بہت تنقید Ú©ÛŒ گئی لیکن یہ خاکسار یہ سمجھتا ہے کہ دراصل یگانہ Ú©ÛŒ فکر Ú©Ùˆ غلط سمجھا گیا وگرنہ انہوں Ù†Û’ وہ نہیں کہا جو Ú©Ú†Ú¾ لوگوں Ù†Û’ اخذکر لیا۔ پہلے یہ شعر پیش خدمت ہے۔
سب ترے سوا کافر‘ آخر اس کا مطلب کیا؟
سر پھرا دے انساں کا‘ آخر ایسا مذہب کیا؟
یہ شعر مذہب Ú©Û’ خلاف نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور تعصب Ú©Û’ خلاف ہے اور اس خاکسار کویہ کہنے میں کوئی تامل نہیںکہ یگانہ صاØ+ب Ù†Û’ یہ شعر جل Ú©Û’ کہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ شعر Ù¾Ú‘Ú¾ کر اشفاق اØ+مد کا شہرہ آفاق افسانہ ''گڈریا‘‘ یاد نہیں آتا؟ اس افسانے کا بنیادی موضوع بھی مذہبی تعصب ہی تھا۔ بہرکیف اس Ø+قیقت Ú©Ùˆ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ شاعر معروضی صداقتوں سے اغماض نہیں برت سکتا۔ انیس ناگی مرØ+وم کہا کرتے تھے جو ادب پارہ عصری صداقتوں سے تہی ہو اسے ردی Ú©ÛŒ ٹوکری میں پھینک دینا چاہئے۔ یاس یگانہ چنگیزی ایک Ø+ساس آدمی تھے اور Ø+ساس آدمی اپنی بے کسی اور بے بسی پر کڑھتا رہتا ہے پھر ایک وقت آتاہے کہ اس Ú©Û’ الفاظ اØ+تجاج کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ یگانہ صاØ+ب Ú©Û’ ہاں بھی کبھی کبھی ایسی صورتØ+ال ملتی ہے۔ ان Ú©ÛŒ شاعری Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ اور رنگ ملاØ+ظہ کیجئے۔
قفس نصیبوں کو تڑپا گئی ہوائے بہار
چھری سی دل پہ چلی جب چلی ہوائے بہار
اور پھر ان کا یہ مشہور شعر کتنی بڑی فطری Ø+قیقت Ú©Ùˆ آشکار کرتا ہے۔
خودی کا نشہ چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
اور اس شعر میں انہوںنے فطرت کا سبق پڑھایا ہے۔
دکھایا گور سکندر نے بڑھ کے آئینہ
جو سر اٹھا کے کوئی زیر آسماں نکلا
اور اس شعر کی اثر انگیزی کا کیا کہنا
وطن کو چھوڑ کر جس سرزمیں کو میں نے عزت دی
وہی اب خون کی پیاسی ہوئی ہے کربلا ہو کر
سیاسی اور معاشرتی Ø+والے سے ان Ú©Û’ دور میں جو شکست Ùˆ ریخت ہوئی‘ یہ شعر مکمل طور پر اس صورتØ+ال کا Ù…Ø+اکمہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
زمانہ پھر گیا چلنے لگی ہوا الٹی
چمن کو آگ لگا کر جو باغباں نکلا
کبھی کبھی اپنی کم نصیبی پر وہ ماتم کناں ہوتے ہیں‘ یہ شعر دیکھیں
آیا نہ کوئی خواب میں بھی ملک عدم سے
افسوس کہ اتنی بھی کشش دل نہیں رکھتا
اور اس شعر میں ان کی قوت متخیلہ پر رشک کرنے کو جی چاہتا ہے۔
دل جلا کر وادی غربت کو روشن کر چلے
خوب سوجھی جلوۂ شام غریباں دیکھ کر
قوت متخیلہ Ú©Û’ Ø+والے سے ان کا یہ شعر بھی دادوتØ+سین Ú©Û’ قابل ہے۔
مزا نہ پوچھئے واللہ دل دکھانے کا
کہاں کا خوف خدا ٹھان لی تو کر گزرے
ذیل میں یاس یگانہ چنگیزی Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ اور اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جن میں ان Ú©Û’ افکار مکمل شعری طرز اØ+ساس Ú©Û’ ساتھ سامنے آتے ہیں۔
فکر انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا
ٹھہر ٹھہر دل ÙˆØ+Ø´ÛŒ بہار آنے دے
ابھی سے بہر خدا اتنا بے قرار نہ ہو
وائے Ø+سرت کہ تعلق نہ ہوا دل Ú©Ùˆ کہیں
نہ تو کعبے کا ہوا میں نہ صنم خانے کا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا
ہنس کے کہتا ہے کہ گھر اپنا قفس کو سمجھو
سبق الٹا میرا صیاد پڑھاتا ہے مجھے
کوئی اتنا بھی نہیں آپ سے غیبت ہی کرے
کانٹے پڑتے ہیں زباں میں میرے افسانے سے
کیوں نہ سینے سے لگی رہتی امانت تیری
داغ دل کیوں نہ ہمیں جان سے پیارا ہوتا
دوا میں اور دعا میں تو اب اثر معلوم
بس اک امید اثر ضبط ناگوار میں ہے
یاس یگانہ چنگیزی 1956 ء کو لکھنو میں وفات پا گئے، ان کی شاعری انہیں زندہ رکھے گی۔